عبدہُ محمد عتین اور محمد جمیل قلندر کی شاعری کا تقابلی مطالعہ

مقالہ نگار: الأمیرہ عُتیننیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز – اسلام آباد

پیش لفظ  (Foreword):

یہ  مقالہ سعودی  شاعر  و  ادیب عبدہ محمد عتین الغریب اور پاکستانی مفکر شاعر و ادیب  پروفیسر ڈاکٹر محمد جمیل قلندر  کی شاعری  کے تقابلی مطالعے سے عبارت ہے۔ اور یہ اس مفروضے (hypothesis) پر مبنی ہے کہ دونوں کی شاعری  رومانوی تخیّل، صوفیانہ وجدان، شعورِ جمال  (aesthetic sense)، تجزیّاتی تعقّل (analytical intellection) اور کُلیّاتی ادراک (holistic perception) کے حسین و جمیل امتزاج اور فطرت پسندی (naturalism) جیسے عناصر پر مبنی ہے۔ دونوں کی شاعری کے سوتے فطرت، محبت، حسن و جمال، آگاہی کی پیاس اور تجسُّس سے پُھوٹے ہیں۔ دونوں کے مطالعے  اور مشاہدے  کا  میدان  بڑا  وسیع ہے۔ دونوں صاحبِ دیوان شاعر و ادیب ہیں۔ اور یہ نہایت اہم بات ہے کہ دونوں حکیمِ مشرق علامہ اقبالؒ کی فلسفیانہ فکر، اس کے صوفیانہ مشاہدے اور خاصکر اس کے نظریۂ خودی سے متأثر ہیں۔ مگر اس فرق  کے ساتھ کہ عبدہ محمد عتین (الغریب) کی شاعری میں تغزّلِ محض کے ساتھ ساتھ موقع اور محل کے مطابق شعر کہنے  کا  رُجحان غَالب ہے۔ جسے عربی زبان میں شعر المناسبات یعنی مواقع کے مطابق شاعری (poetry of occasions)  کہنا چاہیئے۔ جبکہ محمد جمیل قلندر کی شاعری میں وسیع و عمیق اور بلند معنوں میں ماحولیّاتی شعور کے علاوہ  فلسفیانہ فکر اور صوفیانہ  وجدان  کا غلبہ ہے۔

پسِ منظر  (Background):

دونوں شاعروں کی شاعری کے پیچھے جو عوامل کار فرما  رہے ہیں، وہ جہاں گشتی اور ‘‘صحرا نوردی’’ پر مبنی مخصوص ٹھوس اور تلخ و شرین تجربات اور مشاہدات ہیں۔ دونوں نے مقامی کلچر کے خول سے نکل کر بین الاقوامی اور آفاقی مشاہدے کی فضا میں پَر افشانی کی ہے۔ اس ضمن میں عبدہ محمد عتین الغریب نے اپنے ہموطنوں کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے  اُن سے  الگ  اور متمیز  دُنیا  بسا لی  ہے۔ علامہ اقبالؒ  کے  اِس مصرع  کے  مصداق  ع  اپنی  دنیا   آپ  پیدا کر  اگر  زندوں میں ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اُس نے اپنے نام کے ساتھ الغریب (پردیسی) کا تخلّص اپنایا ہے۔ جیسا کہ اُس نے خود اپنے دیوان: دُموع الأسفار (سفروں کے آنسو) کے خود نوشت مقدّمے میں اس کی تصریح کی ہے۔

مطالعے  کا  ہدف  (Objective of Study):

اس مقالے کا بنیادی مقصد دو شاعروں کا تقابلی مطالعہ ہے، جو اگرچہ مختلف وطن  اور  آب و ہوا سے تعلّق رکھتے ہیں، مگر فکر، تخیّل  اور  وجدان  کے  اعتبار  سے  متقارب ہیں۔ اور دونوں شاعروں نے ایک دوسرے کی شاعری میں ان عناصر کو  بے  حد سراہا  ہے: عبدہ محمد عتین (الغریب) نے اپنے مذکورہ عربی دیوان کے مقدّمے میں، اور محمد جمیل قلندر نے اسی دیوان پر اپنی طویل ادیبانہ تقریظ میں۔

مسئلہ زیرِ بحث  کا  بیان  :(Statement of Problem)

شاعروں  کا  شاعرانہ شعور اپنی شعری تخلیق کی بدولت قوموں اور مُلکوں کے درمیان پُل کا کام دیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ  کے نزدیک  شاعر  اپنی قوم کی  آنکھ  ہوتی ہے۔ پیغمبرِ اسلام محمد مصطفی علیہ و علی آلہ و سلّم نے اس حقیقت کی تصریح  فرمائی  ہے  کہ  یہ شعر ہے، جس سے ایک خاص قسم سے حکمت پھوٹتی ہے، اور نیز یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ آسمانوں کے نیچے  اللہ  کے کچھ ایسے خزانے ہیں، جن کی کُنجیاں شاعروں کی زبانیں ہوتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں شاعر ایک ‘‘سر بکف کلیم’’ کی طرح ہوتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ‘‘لاکھ حکیم سر بجیب’’ ہوتے ہیں۔ اس لئے شاعر کی شاعری محبت اور حسن و جمال کے شعور کی بدولت دلوں  اور  روحوں کو  جوڑتی  ہے، جبکہ دُنیا کے سیاسی فلسفے بسا  اوقات انسانی رشتوں کو توڑتے ہیں۔

متغیرات  :(Variables)

عبدہ محمد عتین الغریب کی شاعری میں شاعر کے مختلف سفروں کے دوراں ملکوں کے اندر نہایت تلخ تجارب سے مُڈ بھیڑ پر مبنی مشاہدہ ہی مستقل متغیر (independent variable) ہے، اور شاعر کی سوچ، اُس کے تصوّر، اور وجدان کے مثلّث (triangle) پر مبنی شعری تخلیق (poetic creation) مُنحصر متغیّر (dependent variable) ہے۔

محمد جمیل قلندر کی شاعری میں یہ ماحول اور خودی کے ارتقاء کی سطح ہے، جو مستقل متغیّر بنتی ہے، اور مذکورہ عناصر پر مبنی شعری تخلیق منحصر متغیّر بن کر سامنے آتی ہے۔

مطالعے کی اہمیت :(Significance of Study)

یہ مقالہ اس اعتبار سے بے حد اہم ہے کہ یہ ارضِ حجاز کے شاعر اور ادیب عبدہ محمد عتین الغریب اور پاکستانی شاعر و ادیب کی شاعری کے ایسے تقابلی مطالعے سے عبارت ہے، جس سے اُن کی ‘‘رومانوی اور فطرت پسندانہ شاعری’’ کے مشترکہ اور متمیز پہلو نکھر اور اُبھر کر سامنے آنے کے ساتھ ساتھ یہ دلچسپ اور اہم انکشاف بھی سامنے لاتا ہے کہ دونوں شاعروں کی فکر، اُن کے تصوّر اور وجدان کے سُوتے اگر ایک طرف فطرت کی آغوش اور خُدا کی زمین میں سیر و سیاحت کے سر چشمے سے پُھوٹتے ہیں تو دوسری طرف دونوں شاعر حکیمِ مشرق علامہ اقبالؒ کی فلسفیانہ فکر، اُس کے صوفیانہ وجَدان و مشاہدہ، اُس کے شاعرانہ تخیُّل اور خاصکر اس کے نظریۂ خودی سے اکتسابِ فیض اور اقتباسِ نُور کرتے ہیں۔ یہاں یہ بتانا نہایت اہم بات ہے کہ عبدُہ محمد عتین الغریب نے عربی میں اپنے ایم فِل کا مقالہ حکیمِ مشرق علامہ اقبالؒ کی شاعری پر لکھا ہے۔ جو علامہ اقبالؒ  کے شاعرانہ سوز و گداز کے اندر صحرائے حجاز کےقافلۂ عشق کے بانگِ درا کی آواز کی صدائے بازگشت کانوں تک پہنچتا ہے۔

مذکورہ دیوان اور ایم فل کے مقالے کے علاوہ عبدہ محمد عتین الغریب کے دو مندرجہ ذیل عربی دیوان طبع ہو کر شائع ہوچکے ہیں:

۱۔ المحاولات الفقیرة (کڑھی دھوپ میں درویشانہ کوششیں)

۲۔ هواجس شعرية (شاعرانہ خیالاتِ پریشان)

اس کے علاوہ کئی کتابچے اور مقالے زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔

محمد جمیل قلندر ایک بلند پایہ مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ بیک وقت پانچ زبانوں یعنی پشتو، اُردو، فارسی، عربی اور انگریزی کا قادر الکام شاعر و ادیب ہیں۔  وہ غالباً پہلا پاکستانی شاعر ہے، جس کا باقاعدہ عربی مجموعۂ الکلام حلم الفردوس الأبهى کے نام سے رجب ۱۴۰۷ھ = مارچ ۱۹۸۷ء میں شائع ہوچکا ہے، اور جس پر اُس کی زندگی ہی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ (حال یونیورسٹی) آف ماڈرن لینگویجز ۔ اسلام آباد کے طالب علم عطاء المصطفی نے سال ۱۹۹۴ء میں اپنا ایم اے عربی کا تحقیقی مقالہ لکھ کر پیش کیاہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ اسلام آباد نے مرکزی آڈیٹوریم میں الأمسية الشعرية مع الأستاذ الدکتور محمد جمیل قلندر (پروفیسر ڈاکٹر محمد جمیل قلندر کے ساتھ ایک شام) کے عنوان سے ایک تقریب منعقد کی، جس میں مذکورہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم، اور ایک خاصکر سابقہ دو پروفیسروں ڈاکٹر عبدالکبیر محسن اور ڈاکٹر کمال عبد العزیز مصری نے محمد جمیل قلندر کے مذکورہ عربی  دیوان اور نیز اُردو ۔ فارسی مخلوط دیوان (کشکول) پر تحقیقی اور تنقیدی مقالات پڑھے۔ پروفیسر ڈاکٹر کمال عبدالعزیز مصری نے اپنے مقالے میں کہا کہ ‘‘محمد جمیل قلندر پاکستان کے دوسرے شعراء میں’’ جنہوں نے عربی میں لکھا ہے یا لکھتے ہیں کہ،‘‘ ایک منفرد اور متمیز مقام رکھتا ہے کیونکہ جہاں تک میں جانتا ہوں، وہ تنہا  ایسا شاعر ہے، جو نہ صرف جدید عربی غزل لکھتا ہے (جسے عربی میں قصیدۂ  تفعليه کہتے ہیں)، بلکہ اُس صنفِ سخن پر بھی قدرت رکھتا ہے جسے عربی میں قصیدۂ عمودیہ کہتے ہیں’’۔ آگے چل کر ڈاکٹر کمال عبدالعزیز مصری لکھتا ہے کہ محمد جمیل قلندر کے عربی دیوان کی منجملہ صفات میں سے:

جو شے جاذبِ توجہ ہے، وُہ مقدمہ ہے، جو اُس نے نثر میں اپنے دیوان کے شروع میں لکھا ہے۔ اور جہاں تک عربی ادبی ورثے میں مقدمات کا تعلق ہے تو بسا اوقات وہ اصل کتاب سے جس کے لئے وہ لکھے گئے ہوتے ہیں بڑھ چڑھ کر شاندار ہوتے ہیں۔ اور یہ وہ حقیقت ہے، جو ابن قتیبہ کے مقدمۂ شعر و شعراء أبوتمام کی شرحِ حماسہ پر موزوقی کا مقدّمہ، اور خاصکر مقدمۂ ابن خلدون، جو اس کی تاریخ: کتاب المبتداء و الخبر کا پہلا جزء بنتا ہے، اور اتنا مشہور ہوگیا ہے کہ اصل کتاب کو لوگ بُھول چُکے ہیں۔ عصرِ حاضر میں بھی محمود شاکر کا مقدّمہ، جو اس نے متنبّی پر اپنی کتاب کے شروع میں لکھا ہے، شائع ہوگیا ہے۔ بعینہ یہی حال محمد جمیل قلندر کے عربی مقدّمے کا ہے، جو اس نے اپنے دیوان کے آغاز میں، جو ہمارے ہاتھوں میں ہے، لکھا ہے۔ یہ مقدمہ بظاہر تو مختصر سا ہے، مگر یہ ایک ایسی شاندار اور شہکار نثر میں لکھا گیا ہے، جو بسا اوقات اپنی خوبصورتی میں دیوان کی بعض نظموں اور غزلوں سے بڑھ کر شاندار ہے۔ مثلاً اپنے شاعرانہ اظہار کے اُن پرایوں کے پیشِ نظر جو ایسے لا محدود تخیُّل کے پروں سے آراستہ و پیراستہ ہیں، جو اظہار و کے اُفق پر اُڑتا ہُوا تیر رہا ہے۔

یوں پروفیسر ڈاکٹر کمال عبد العزیز عصری نے محمد جمیل قلندر کے فنِ شاعری اور اس کے تحریر کردہ مقدمۂ دیوان کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیاہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنا مقالہ ان الفاظ میں پر ختم کردیا ہے کہ ‘‘چاہے جو بھی صورتِ حال ہو، ادیب و شاعر محمد جمیل قلندر اس بات میں کامیاب ہُوا ہے کہ وہ پاکستانی شعراء کی یادگار تختی پر سرِ فہرست وہ پہلا نام ثبت کردے کہ جس نے عربی میں ایسی نظم اور غزل کہی، جو نقّاد حضرات کی دلچسپی اور توجُّہ کی مستحق ٹھہری’’۔

مطالعے کے بنیادی سوالات :(Research Question)

 ۱۔ عبدہ محمد عتین الغریب کون ہے؟ اس کی شاعری کے نمایاں کیا خصائص ہیں؟ اس کی شاعرانہ تخلیق (poetic creation) کے سرچشمے کیا ہیں؟

۲۔ محمد جمیل قلندر کون ہے؟ اس کی شاعری کے اہم پہلو کیا ہیں؟ اس کے شاعرانہ الہام (poetic inspiration) کے سوتے کہاں سے پھوٹتے ہیں؟

۳۔ عبدہُ محمد عتین الغریب اور محمد جمیل قلندر کی شعر و شاعری کے مشترکہ پہلو کونسے ہیں؟ اور کس موڑ پر ان کے رستے الگ ہوجاتے ہیں۔

۴۔ دونوں شاعروں کے شاعرانہ فکر و فن جے موازنے کی تبریر (Justification) اور اہمیت کیا ہے؟

مطالعہ  و تحقیق  کا  طریقۂ کار  (Research Methodology):

اس مطالعے میں جو تحقیقی طریقۂ کار اپنایا گیا ہے، وہ بڑی حد تک بیانیہّ (descriptive) ہے، اور متعلقہ لٹریچر کی سروے (survey of literature) پر مبنی ہے۔ اور نیز اس میں دو شاعروں کے شاعرانہ فکر و فن کا موازنہ کیا گیا ہے، جسے عربی میں مقارنہ اور مفارقہ پر مبنی مطالعہ (comparative and contrastive study) کہتے ہیں۔

ایک ضروری تصریح :(One Necessary Explanation)

اس مقالے کے اندر ذکر شُدہ دو شاعروں: عبدہ محمد عتین الغریب اور محمد جمیل قلندر، اور دوسری نامی گرامی علی و ادبی شخصیات کےذکر کے ضمن میں ان میں سے ہر ایک کی طرف اشارہ کرتے وقت ضمیر جمع غائب (مُنفصل / متّصل): [وہ، آپ  کا / کی / کے] اور [ ان کا / کی/ کے ] کی بجائے ضمیر مفرد غائب (مُنفصل / مُتّصل): [وہ، اُس کا / کی / کے]  استعمال ہُوا ہے تاکہ سمجھنے میں ابہام و التباس (confusion) پیدا نہ ہو۔ اس کو خدانخواستہ بے ادبی اور گستاخی پر محمول نہ کیا جائے۔

لٹریچر کی سروے  :(Survey of Literature)

جب اس تقابلی مطالعے کا ارادہ کیا گیا تو اس سے متعلقہ مواد کی طرف رُجوع کرنا پڑا۔ عبدہ محمد عتین الغریب کے بارے میں مواد آسانی سے دستیاب ہُوا۔ جس میں اُس کی مندرجہ ذیل تحریریں (writings) سرِ فہرست ہیں:

۱۔  دُمُوْالأسفار (ٍسفروں کے آنسو): عربی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ۔ میرے پیشِ نظر اس کا شعبان ۱۳۱۴ھ = یولیو ۲۰۱۲ء کا ایڈیشن ہے۔ یہی دیوان میرے اس مطالعے کا محور ہے۔

۲۔ المحاولات الفقيرة في الظهيرة (کڑی دھوپ میں درویشانہ کوششیں)

۳۔ هواجس شعرية (شاعرانہ افکارِ پریشان)

۴۔ کئی کتابچے اور مقالے جو زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں۔

مُلکِ شام کے مشہور و معروف دو شاعروں: عُمر ابو ریشہ اور نزار قبانی کے بعد عبدُہ محمد عتین الغریب غالباً وہ تیسرا شاعر و ادیب ہے، جو اُن کی طرح سِلکِ دبلوماسی یعنی ڈپلومیٹک پیشے سے منسلک رہتے ہوئے شاعری کرتا رہا ہے، اور جس کا سلسلہ ابھی  جاری ہے۔ اور اس پیشہ ورانہ زندگی میں اُس نے کئی ملکوں کا نہ صرف سفر کیا ہے، بلکہ وہ ایک عرصے تک وہاں مقیم بھی رہا ہے۔ دیس دیس ‘‘گھومنے پھرنے’’ کے پیشِ نظر، جیسا کہ وہ خود اپنے مذکورہ دیوان   دُمُوْع الأسفار کے مقدمے میں لکھتا ہے، اُس نے اپنے دل کو اجنبی اور مسافر کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اور اس مسافری کی زندگی میں اُس نے کئی زبانیں سیکھ لی ہیں مثلاً:  انگریزی، سری لنکا اور مالدیف کے جزیروں کی دوهيزبان، اندونیشیا کی زبان باھاسا، نائیجیریا کی زبان ھوسا، اور پاکستان کی قومی زبان اُردو۔

مختلف ملکوں کی تہذیب و ثقافت سے واقفیت نے عبدہ محمد عتین الغریب کے تجربے اور مشاہدے کا اُفق  (horizon) بڑا وسیع کردی ہے۔ بالفاظِ دیگر، وہ ایک وسیع المشرب شاعر و ادیب بن کر اُبھرا ہے۔

جہاں تک محمد جمیل قلندر  کا تعلق ہے تو اگرچہ وہ ایک بین الاقوامی سکالر ہے، مگر عرب دُنیا میں شاعر و ادیب کے طور پر اُس کا اتنا تعارف نہیں ہُوا ہےجتنا کہ ہونا چاہیئے۔ اُس کی شخصیت اور شعر و شاعری کے بارے میں معلومات کا حصول ایک دشوار مرحلہ رہا ہے۔ اس کے لئے مجھے NUML کی مرکزی لائبریری کے علاوہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی طرف رُجوع کرنا پڑا، جہاں  وہ گزشتہ ایک عشرے سے پڑھا رہا ہے۔ مٍذکورہ یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری اور اُس کے ذیلی ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کی لائبریری اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ۔ اسلام آباد کی مرکزی لائبریری سے بڑا قیمتی مواد دستیاب ہُوا۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل مصادر و مراجع بڑے اہم ہیں، جو میرے اس مطالعے کی بُنیاد  بنتے ہیں:

١۔ حُلْمُ الْفِرْدَوْسِ الأبْهَى: محمد جمیل قلندر کا پہلا باضابطہ عربی دیوان، جو اس کے خود نوشت عربی مقدّمے کے ساتھ پکٹوریل پرینٹر (پرائیویٹ لیمیٹڈ)۔ اسلام آباد سے ١۹۸۷ء میں شائع ہوُا۔ اس دیوان کی شاعرانہ قدر و منزلت اور اس کے عربی مقدّمے کی ادیبانہ اہمیّت کے بارے میں میرے اس مقالے کے ذیلی عنوان: (مطالعے کی اہمیت) کے تحت مختصر سی گفتگو گزر چکی ہے۔

۲۔ کشکول: محمد جمیل قلندر کا دوسرا  اُردو ۔ فارسی مخلوط مجموعۂ کلام، جس میں زیادہ حصّہ اُردو غزلوں اور طویل نظموں کا ہے۔ یہ مجموعۂ   ١۹۹۶ء میں لاہور سے شائع ہُوا۔ اس دیوان کے اندر شاعری کا مجموعی مزاج دیکھ کر یہ بجا طور پر کہا گیا ہے کہ جمیل قلندر کے روپ میں علامہ اقبالؒ نے دوسرا جنم لیا ہے۔ خاصکر کشکول کی نظم (ایک تمنّا) تو بانگِ درا کی نظم (ایک آرزو) کی صدائے بازگشت لگتی ہے۔

۳۔ الماهيم الأساسية في ديوان حلم الفردوس الأبهى (للشاعر محمد جميل قلندر): نیشنل انسٹی ٹیوٹ (حال یونیورسٹی) آف ماڈرن لینگویجز کے شعبۂ عربی کے سابقہ طالبِ علم (پروفیسر ڈاکٹر) حافظ عطاء المصطفی  کے ایم اے (عربی) کا تحقیقی مقالہ (thesis)، جو اُس نے عربی زبان میں محمد جمیل قلندر کے سوانحِ حیات اور مذکورہ بالا عربی دیوان پر لکھا ہے۔ یہ غالباً پہلا تحقیقی مقالہ ہے،  جوکسی شاعر و ادیب کی زندگی میں اس کے فکر و فن پر لکھا گیا ہے۔ اس کا ایک نسخہ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز ۔ اسلام آباد کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے۔ اس میں مذکورہ دیوان: حُلْمُ الْفِرْدَوْسِ الأبْهَى کے اشعار اور اس میں وارد شدہ بعض کلیدی اصطلاحات کے حوالے سے محمد جمیل قلندر کے ماوراء الطبیعیاتی، سائنسی، عرفانی، زمانی و مکانی اور ماحولیاتی فلسفے کے بعض اہم پہلوؤں کو پہلی مرتبہ شرح و بسط کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے۔

۴۔ الفكرة الشعرية لدى محمد جمیل قلندر فى ديوانه العربي: حلم الفردوس الأبهى (Poetic Thought of Muhammad Jamil Qalander in his Arabic Verse Book: The Dream of the Magnificent Paradise)  بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی۔ اسلام آباد کے شعبۂ عربی کے سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالقدیر  کا نہایت فاضلانہ تحقیقی مقالہ، جو اُس نے مذکورہ یونیورسٹی کے اندر (محمد جمیل قلندر کے ساتھ ایک أدبی شام) کے عنوان سے اس کے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں پڑہ کرپیش کیا تھا۔ یہ مقالہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے عربی مجلہ کے سال ۲۰۰۰ء = ١۴۲١ھ کے شمارہ ۷ میں شائع ہُوچکا ہے۔

۵۔ ديوان حلم الفردوس الأبهى للفيلسوف الشاعر محمد جميل قلندر(Poet-Philosopher Muhammad Jamil Qalander in his Arabic Verse Book: The Dream of the Magnificent Paradise): بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی۔ اسلام آباد کے شعبۂ عربی کے سابق ایسوسی ایٹ پروفیسر  (اور حال جامعۃ الزقازیق –  مصر کے شعبۂ عربی کے پروفیسر) ڈاکٹر کمال عبدالعزیز کا نہایت مبسو ط عالمانہ اور تجزیّاتی وتحقیقی مقالہ جو اُس نے مذکورہ با لا تقریب میں پڑھ کر سُنایا تھا۔ یہ مقالہ جو اسلام آباد کے مجلہ ‘‘قیادت’’ میں چھپ چُکا ہے،محمد جمیل قلندر کی عربی شاعری سےعرب دنیا کو متعارف کرانے کی پہلی فاضلانہ کوشش ہے۔

۶۔ قِراء نقدية في ديوان كشكول القلندر: (دیوان کشکولِ قلندر کا ایک تنقیدی مطالعہ): بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی۔ الام آباد کے شعبۂ عربی کے اُستاٍذ پروفیسر حبیب الرحمن عاصم  کے قلم سے محمد جمیل قلندر کے اُردو ۔ فارسی مخلوط دیوان پر عربی میں نہایت فاضلانہ اور عالمانہ تنقیدی مطالعہ جس کا خلاصہ اُس نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

یہ تحقیقی مقالہ پاکستان کے شعراء میں سے ایک شاعر کے أدبی  کارناموں میں ایک  کارنامے  کا فنی تجزیہ پیش کرتا ہے، اور وہ شاعر محمد جمیل قلندر کا دیوان ‘‘کشکول’’ ہے۔ اس دیوان میں وہ اپنے فنِ شاعری کے مقاصد سے متعلق سب سے واضح موقف رکھتا ہے، اور وُہ محبّت  کا موقوف ہے، جس کے بارے میں وہ اپنا ایک مخصوص تصوّر پیش کرتا ہے، اور اسی طرح اُس  کا صُوفیانہ رُجحان سے متعلق ایک موقف ہے، جو اس دیوان سے (کسی لمحے بھی) اوجھل نہیں ہو پاتا۔ کیونکہ وہ اِس کی کئی غزلوں اور نظموں میں سامنے آتا ہے۔ متعدّد پہلوؤں میں سے جو پہلو ہماری یہ تحقیق اس دیوان کے اندر (مسلسل) ‘‘دیکھتی’’ ہے، وہ اس دیوان میں اقبالؒ  کے فلسفے کا اثر ہے۔ اور نیز یہ قرآنی اور عربی محاوروں کا ایک بڑا ذخیرہ سامنے لاتی  ہے، جس سے یہ دیوان بھرا پڑا ہے، اور جو عربی ادب سے شاعر کے متاثر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، اور اسی طرح یہ اُن بُحور (اوزان) کا بھی مطالعہ کرتی ہے، جن میں زیرِ نظر دیوان کی غزلوں اور نظموں کا وُرود ہوُا ہے۔ سو جو بُحور (اوزان) اِس دیوان پر چھائے ہوئے ہیں، انہیں یہ بیان کرتی ہے۔ مثال کے طور پر  (عربی شاعری کے) دو بحر (وزن)، جنہیں ‘‘خفیف’’ اور ‘‘ھزج’’ کہتے ہیں۔  یہ تحقیق  دیوان کی غزلوں اور نظموں کی تعداد کا  احصاء کرتی ہے، جو (عربی) شاعری کے بُحور (اوزان) میں سے ہر بحر (وزن) میں وارد ہوئی ہیں۔  اس تحقیق میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ شاعری کے وہ تمام نمونے جو سامنے لائے گئے ہیں ، اُن کا عربی ترجمہ بھی پیش کیا جائے، اور ان کے بعض اہم نمایاں پہلوؤں کا فنی مطالعہ نذرِ قارئین کیا جائے۔

بائیس صفحات پر پھیلا ہُوا یہ تحقیقی مقالہ، جیسا کہ اس کے مذکورہ خلاصے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، محمد جمیل قلندر کی اُردو شاعری کا پہلا جامع، علمی و فنی اور تنقیدی مطالعہ ہے۔ اور جو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ اسلام آباد کے عربی سالنامے کے سال ۲۰۰۰ء = ١۴۲١ھ کے شمارہ نمبر ۸ میں شائع ہوا ہے۔ اس عربی مجلّے کی علمی و ادبی قدر و قیمت  اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس کا ایڈیٹوریل بورڈ مندرجہ شخصیات پر مشتمل رہا ہے:

ا۔ چیف ایڈیٹر: پروفیسر ڈاکٹر حسن محمود عبد اللطیف شافعی

ب۔ ایڈیٹر: ڈاکٹر محمد عبد العزیز عبد الدائم

ج۔ ارکان:     (١) ڈاکٹر احمد محمد العسّال

               (۲) ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری

               (۳) ڈاکٹر محمود احمد غازی

               (۴) ڈاکٹر رجا عبد المنعم جبر

               (۵) ڈاکٹر  دیاب سلیم عُمر

               (۶) ڈاکٹررمضان اختر

گویا اس طرح مذکورہ نامی گرامی شخصیات پر مشتمل ایڈیٹوریل بورڈ نے محمد جمیل قلندر کی اُردو شاعری کے بارے میں پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم کے مذکورہ فاضلانہ و عالمانہ عربی مقالے کی اہمیّت پر اَور شاعری کی قدر و منزلت پر مُہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔

(۷) جدید پشتو ادب: پاکستان کےصوبہ خیبر پختونواہ کے مشہور و معروف شہر کوہاٹ کے شاعر و ادیب ایوب صابر کی معلوماتی کتاب، جو اگرچہ خیبر پختونخواہ کے پشتون شاعروں اور ادیبوں کے تذکرے تک محدود ہے، مگر اس لئے اہم ہے کہ اس میں محمد جمیل قلندر کی نوجوانی کی دور کی شاعری اور اس کے حوالے سے اُس کے فلسفۂ حیات اور تصوّرِ انسان کا تذکرہ شامِل ہے۔

ایوب صابر لکھتے ہیں:

محمد جمیل قلندر کا تعلّق کُرّم ایجنسی سے ہے اور یہاں وہ تقی شراب ہاشمی کے بعد پشتو کے سب سے اہم شاعر ہیں۔ ان کی گرفت جدید غزل اور جدید نظم دونوں پر مضبوط ہے۔ چونکہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ٹی ایس ایلیٹ سے متأثر ہیں۔ اس لئے نئی علامتیں بڑی فنکاری اور چابکدستی سے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سماجی شعور کے بغیر  شاعری ناقص ہے۔ وہ شاعری میں آفاقیت کے علمبردار ہیں اور کہتے ہیں کہ جو شاعری اپنے خالق کو اپنی ذات کی چادر دیواری میں محصور کردے اور اس کا رشتہ سماج سے برقرار نہ رہنے دے۔ وہ قابلِ مذمت ہے۔ ان کے نزدیک انسان دماغ، دل، جنس اور پیٹ کے تقاضوں کا دوسرا نام ہے۔ وہ اپنی شاعری میں انسان کو انہی حوالوں سے پیش کرتے ہیں۔

ایوب صابر کی یہ کتاب مکتبہ شاہین ۔ خیبر بازار ۔ پشاور سے جون ١۹۷۴ء میں چھپ چُکی ہے۔

(۸) نیا پرانا لہجہ ۔ غزلیات: پاکستان کے مشہور شاعر و ادیب پروفیسر شوکت واسطی کے زیرِ اہتمام مُرتب شُدہ کتاب، جو ایوب صابر کی کتاب: جدید پشتو ادب کے بر عکس خیبر پختونخواہ کے اُردو کے شعراء اور ادباء کے تذکروں پر مشتمل ہے، اور جس میں خاص بات یہ ہے کہ اس میں محمد جمیل قلندر کے مختصر سے تعارف کے علاوہ اُس کی اُردو شاعری کاخصوصی ذکر آیا ہے۔ چنانچہ پروفیسر شوکت واسطی لکھتے ہیں:   

پارا چنار کالج (کُرم ایجنسی) اور پشاور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ عربی اور فلسفے میں ایم اے کیا۔ بیروت کی امریکن یونیورسٹی سے نظری اور عملی تعلیم میں سند حاصل کی۔

ذہین طالب علم تھے۔ امتحانات میں اعزاز کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ محنتی اُستاد ہیں۔ گورنمنٹ کالج پاراچنار میں تعیّنات ہیں۔

کرم ایجنسی کے قبائلی علاقے میں پیدا ہوئے، وہیں پلے بڑھے لیکن اُردو زبان پر ان کا عبور کسی اہلِ زبان سے کم نہیں۔ ذوق  بہت عمدہ ہے۔ فلسفہ اور دینیات سے شغفِ خاص ہے۔ لہذا ادب میں تکوین و تخلیق کی گُتھیاں سُلجھاتے ہیں۔ خود لکھتے ہیں: ‘‘نظموں اور غزلوں کا مجموعہ زمینی فردوس کے بارے میں شاعر کے خواب و تصوّر کی فنّی تصویر ہے ۔۔۔۔۔ شعری وجدان بہشتِ جمال و جلال کی سیر کر رہا ہے۔ اس انداز سے کہ دریافتیں قاری کے ماحولیاتی شعور کو بیدار کرتی ہیں’’۔ ان کی یہ کتاب زیرِ ترتیب ہے۔ محمد جمیل قلندر کی اس تحریر میں غالباً اس کے عربی مجموعۂ کلام: حُلْمُ الْفِرْدَوْسِ الأبْهَى (حسین و جمیل بہشت کا خواب) کی طرف اشارہ ہے، جو اُس وقت چھپا نہیں تھا۔

آخر میں شوکت واسطی لکھتے ہیں:

ان کا اصل میدان تحقیق ہے۔ پس کئی تحقیقی مقالات انگریزی، اُردو اور عربی زبانوں میں منتظرِ طباعت ہیں۔

اس ‘‘حرفِ آخر’’ کےبعد محمد جمیل قلندر کی تین اُردو غزلیں نقل کی گئی ہیں۔

(۹) حساب دوستان (در  کتاب ۔ ایک سو شخصیّات): پشاور کے پرفیسر ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کی تالیف، جس کا ذکر اس نے اِس کے پیش لفظ میں ‘‘قلمی خاکے’’ کے نام سے کرایا ہے۔ اور جو خیبر پختونخواہ کی ادبی، سیاسی، سماجی اور تعلیمی شخصیات کے بارے میں مؤلف کی یاداشتوں پر مشتمل ہے۔ اس میں اُس نے جمیل قلندر کے تذکرے  کے لئے ‘‘بائیسویں صدی کا دانشور’’ کے ذیلی عنوان کے تحت۔ پورے اڑھائی صفحے وقف کئے ہیں،  اور جمیل قلندر کے بارے میں، جب وہ گورنمنٹ کالج ۔ پاڑہ چنار میں لیکچرار تھا، اس کی اُس زمانے کی وضع قطع، روٹین، لائف سٹائل اور سوچ کے حوالے سے بعض دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔ یہ کتاب ادراۂ علم و فن (پاکستان) پشاور سے جنوری ١٩۹۵ء میں شائع ہوئی۔

(١٠) السيرة الذاتية للأستاذ الدكتور محمد جميل قلندر (پروفیسر ڈاکٹر محمد جميل قلندر کی سوانح عُمری): ١۸۴ صفحات پر پھیلا ہوُا ہے مجموعۂ اوراق، جس میں محمد جميل قلندر کی تعلیمی اہلیت اور اُردو، عربی، فارسی، اور انگریزی زبانوں میں اس کی علمی، تحقیقی اور ادبی تحریروں کی تفصیل، اور نیز انہی مختلف اور متنوع تحقیقی اور تخلیقی ‘‘آثارِ قلم’’پر اردو ، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں بین الاقوامی حیثیّت و اہمیت کے حامل مندرجہ ذیل سکالروں کے تبصروں  (comments) پر مشتمل ریکارڈ ہے، جو بالترتیب یہ ہیں:

١۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے سابق پروفیسر اور سربراہ ڈاکٹر فضل معبود کا تبصرہ (عربی زبان میں)،

۲۔ جامعہ ازہر ۔ مصر کے فاضل اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ (حال یونیورسٹی) کے شعبۂ عربی سے سابقاً وابستہ پروفیسر سلیمان عبدالحمید علّام کا طویل تبصرہ (عربی زبان میں)،

۳۔ ادارۂ تحقیقاتِ ایران ۔ اسلام آباد کے محقق ڈاکٹر محمد حسین تسبیحی (رھا) کی طرف سے محمد جميل قلندر کو منظوم خراجِ تحسین (چار فارسی قصائد پر مشتمل)،

۴۔ دمَشق (شام) کے سکالر مراد مولوی بن محمد مولوی کا تبصرہ (عربی زبان میں)،

۵۔ جامعہ ازہر ۔ قاہرہ (مصر) کے اصول الدین کے شعبہ کے فلسفے اور منطق کے عالِم اور پروفیسر ڈاکٹر عبد المقصود حامد المقصود کی طرف سے محمد جميل قلندر کے عربی زبان و ادب و فلسفۂ لسانیات میں پی ایچ ڈی تحقیقی مقالے پر تبصرہ (عربی زبان میں)،

۶۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ اسلام آباد کے سابق سربراہ، اور عربی زبان و ادبی کے مانے ہوئے سکالر اور پروفیسر اور کئی کتابوں کے مصنف پروفیسر ڈاکٹر حسین محمود عبد اللطیف شافعی مصری کی طرف سے محمد جميل قلندر کے مذکورہ تحقیقی مقالے پر تین صفحات پر پھیلا ہوا تبصرہ (عربی زبان میں)،

۷۔ پنجاب یونیورسٹی ۔ لاہور کے شعبۂ عربی کے سابق سربراہ، عربی زبان و ادب کے سکالر اور کئی تحقیقی مقالات کے مؤلف پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک کی طرف سے مذکورہ تحقیقی کام پر تین صفحات پر پھیلا ہُوا تبصرہ (انگریزی زبان میں)،

۸۔ محمد جميل قلندر کی عربی اور اُردو شاعری پر پروفیسر عبد الکبیر مُحسن، پروفیسر ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم اور پروفیسر ڈاکٹر کمال عبد العزیز کے فاضلانہ و عالمانہ تحقیقی، تجزیاتی اور تحقیقی مقالے، جن کا اجمالی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔

۹۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد جميل قلندر کے عربی اور انگریزی زبانوں میں آٹھ تحقیقی مقالے، جو بین الاقوامی شہرت کے حامل مجلّات میں شائع ہوچکے ہیں۔

١۰۔ محمد جميل قلندر کے بارے میں چند نمائندہ  شاگردوں کے تأثرات،

١١۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی فیکلٹی آف عربک کے اندر مندرجہ ذیل موضوعات پر محمد جمیل قلندر کے فیکلٹی لیکچرز (faculty lectures) کا اجمالی اور سرسری ذکر:

١) عربی ادبیات کا ارتقاء

۲) أدبی اور تنقیدی مطالعوں کے اندر عملیّاتی طریقۂ کار (pragmatic methodology)

مذکورہ بالا مجموعۂ اوراق کی فوٹوسٹیٹ کاپی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ اسلام آباد کے شعبۂ عربی سے مِلی۔

مندرجہ ذیل مواد کے علاوہ پروفیسر ٖڈاکٹر عبد الکریم مُحسن، اور ایک خاتون کے عربی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کے اندر محمد جمیل قلندر کی عربی شاعری کا تذکرہ آیا ہے، اور نیز دار العلم ۔ آبپارہ (اسلام آباد) کے بانی مولانا محمد بشیر کے صاحبزادے ۔۔۔۔۔ کی طرف سے محمد جمیل قلندر کے عربی دیوان:  حُلْمُ الْفِرْدَوْسِ الأبْهَى پر عربی زبان میں ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا گیا ہے۔ اور ایک اور تحقیقی مقالہ انگریزی زبان میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبۂ انگریزی کے ایک پروفیسر نے محمد جمیل قلندر کے مذکورہ بالا دیوان پر لکھا ہے، جو اسی شعبے کے مجلّے میں چھپ گیا ہے۔ یہ دونوں مقالے مجھے نہیں مل سکے ہیں۔

١۲۔ محمد جمیل قلندر کی انگریزی شاعری پر، اور خاصکر اس کے آٹھ صفحات پر پھیلی ہوئی انگریزی نظم: The Dawn of A New Era جو اگرچہ مغربی مادیّت اور توسیع پسندانہ سیاست پر ایک کھلی بے لاگ تنقید ہے، اس کے باوجود اس پر مغرب کے مندرجہ سکالروں نے اپنے اپنے تبصروں میں اُسے  زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے:

١) امریکہ کے دانشور اور صحافی سکاٹ میخائیل ہارنے (Scott Michael Harney)

۲) امریکہ کے سائنسدان گریگری وُلذ (Gregory Volz)

۳) امریکہ کی ایک خاتون( Jasmine Martin)[1]

۳) رُوس کی ماوراء النفسیات (parapsychology) اور روحانیت کی ماہر خاتون (Lassaria Gorwardhami)

محمد جمیل قلندر کی کچھ انگریزی شاعری، اور مذکورہ بالا انگریزی نظم ان تبصروں کے ساتھ مجھے انٹرنیٹ سے دستیاب ہوئی۔

سرزمینِ حجاز کے شاعر و ادیب عبدہُ محمد عتین اور پاکستانی مفکر اور شاعر محمد جمیل قلندر کی شاعری کا تقابلی مطالعہ:

عبدہُ محمد عتین کا عربی دیوان، جو شعبان ١۴۳۳ھ = جولائی ۲۰١۲ء میں اسلام آباد سے شائع ہُوا ہے ۴۵ غزلیات اور نظمو ں پر مشتمل ہے، ان میں سے میں نے اس تقابلی مطالعے کے لئے اس کی مندرجہ ذیل دو نظمیں، جو اس نے پاکستان کے بارے اپنے تأثرات (impressions) کے اظہار کی رَو میں لکھی ہیں، چُنی ہیں:

١) زخمِ فراق

۲) وطن کا عشق اور مامتا کی محبّت

ان دونوں نطموں کا عربی سے اُردو میں منظوم ترجمہ ڈاکٹر محمد جمیل قلندر نے اصل کی موسیقیّت، معنویّت اور ڈکشن (diction)کی رُوح کو محفوظ کرتے ہوئے نہایت خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ جس کو پڑہ کر ‘‘نقل’’ کی بجائے ‘‘اصل’’ کا گمان ہوتا ہے۔

عبدہُ محمد عتین اور محمد جمیل قلندر کے درمیان منجملہ متعدّد امور میں سے جو جو قدرِ مشترک ہے، وہ علامہ اقبالؒ کے شاعرانہ شعور، فلسفیانہ فکر اور صوفیانہ وجدان سے دونوں کا متاثر ہونا ہے۔ عبدہُ محمد عتین نے اپنے ایم فل (عربی) کا تحقیقی مقالہ، جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، علّامہ اقبالؒ کی شاعری پر لکھا گیا ہے، جبکہ محمد جمیل قلندر کی عربی اور اُردو شاعری علامہ اقبالؒ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

علامہ اقبالؒ کی شاعری میں مظاہرِ فطرت (phenomena of nature) کے محسور کُن حُسن کا عکس جگہ جگہ جھلکتا ہے۔ علّامہ اقبالؒ جمالیات (aesthetics) کا شاعر ہے، اور حسن و جمال چاہے مظاہرِ فطرت میں ہو، یا نسوانی رُوپ میں ہو، اس کی نہ صرف کمزوری ہے، بلکہ اُس کی تجلی اُس کی رُوح پر بجلی کی طرح آگرتی ہے۔ علاوہ ازیں، علّامہ اقبالؒ اپنے مُرشد جلال الدین رومیؒ کی طرح عشق و محبت کے گُن گاتا ہے، اور اس کی طرف بنی آدم کو بُلاتا ہے۔ چنانچہ مظاہرِ فطرت کا حُسن، نوانی حُسن و جمال اور عشق و محبت یہ تین محور ہیں، جن کے اِرد گرد علّامہ اقبالؒ کی شاعری اور سوچ گھومتی ہے۔

عبدہُ محمد عتین اقبالؒ کی طرح مظاہرِ فطرت کے حُسن سے محسور اور جامِ فظرت کے اندر شرابِ حُسن پی کر مخمور رہتا ہے۔ یہ حُسن و جمالِ فطرت ہی ہے، جو خاص طور پر اس کی قصیدے: وطن کا عشق اور مامتا کی محبت کا موضوع بنتا ہے، اور اول سے آخر تک اِس کے اندر اُس کا عکس جھلکتا اور اُس کا بادہ چھلکتا ہے۔

یہ بات یہاں مستحق توجہّ ہے کہ محبوب کی محبّت، وطن کا عشق، مامتا کا پیار اور اور مظاہر فطرت کے حُسن و جمال سے لگاؤ عبدہُ محمد عتین کی شاعری میں ایک دوسرے کے ساتھ یوں مدغُم ملتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ اس کا ‘‘نگارِ حُسن’’ ‘‘نگارِ وطن’’ کا رُوپ دھارے ہوئے ہے۔

اس ضمن میں اس کے قصیدے: وطن کا عشق اور مامتا کی محبت سے مندرجہ ذیل اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

اے   سندھ   کی   ہَوا! ہوں  پرستار تُجھ  کا
تِرے    میٹھے    گُن   کتنے   گائے   ہیں   یار!

اے  پنجاب  کے گُل!دلوں  کا  ہوں  شاعر
ترے  دل میں کب  شاعروں  کا ہے  پیار؟

نگارم !    تو    میرا    تصوّر    حسیں    ہے

جسے     بخشدیا     شعری    نقش   و     نگار

مرے دل پہ کھا ترس پیاری! کہ ہُوں میں
تِرا          شاعِرِ      تشنہ   و      دِل      فِگار

پلادے  بس  اک  میٹھی  پیاری  نظر   سے 
مِری    تشنہ    حِس    کی    عبث  ہے   پُکار

اس ماحولیاتی تذکار اور ‘‘تذکرۂ دیار’’ کے پسِ منظر میں ‘‘ذکرِ یار’’  عبدہُ محمد عتین کی زیرِ تبصرہ نظم کا نمایاں پہلو ہے۔

وطن کا عشق اور مامتا کی محبت دراصل ایک استعاراتی نظم (metaphorical poem) ہے، جس میں محبوب کی محبت اور ‘‘ذکرِ یار’’ کے رُوپ میں دیارِ وطن کا عشق انگڑائیاں لیتا ہے، اور یوں اس کے اندر رومانویّت (romanticism)، فطرت دوستی (naturalism) اور وطن پرستی (nationalism) جیسے تینوں جذبے ایک دوسرے کے گُھل مِل چکے ہیں۔

اس باب میں مذید اشعار پیش کئے جاتے ہیں:

اے سندھ کی ہوا! میں ہوں اِک سچا عاشق
ہے  تُجھ  میں  میرے  دل  کا  چین  و  قرار

وہ  ماں  جیسے  ہے،گر  چلے  جاؤں  اُس  بِن 
وہی    دیس    چاہوں    اور    ممتا    کا   پیار

یہ نظم اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ ارضِ پاکستان جو علامہ اقبالؒ کے خواب کی تعبیر ہے، اور جو شاعروں، ادیبوں، لوک فنکاروں، موسیقاروں، اور صوفیائے کرام کی مختلف النوع ثقافتی ورثے کی سر زمین ہے، اور جو اپنی گونا گوں صوبہ جاتی آب و ہوا کی عرشِ بریں ہے، اُس کے ساتھ سر زمین حجاز کے شاعر  عبدہُ محمد عتین کا دِلی لگاؤ پیدا ہوچکا ہے کیونکہ وہ یہاں ایک عرصے سے رہتا رہا ہے اور علام اقبالؒ کے شاعرانہ شعور، فلسفیانہ فکر اور صوفیانہ وجدان سے اپنی شاعری اور فکر کی شمع جلا چُکا ہے، یہاں تک کہ علامہ اقبالؒ سے عقیدت اُسے کشاں کشاں لاہور کی تاریخی بادشاہی مسجد کے پہلو میں علامہ اقبالؒ کے مزار تک لے گئی ہے۔

رومانویّت کا جذبہ:

عبدہُ محمد عتین الغریب کی زیرِ تبصرہ نظم کے آغاز میں یہ رومانویت کا جذبہ ہے، جو اپنا پَر تولتا ہے، اور عشق  و محبت کی بولی بولتا ہے۔ اس نے اپنے عربی دیوان: دُمُوعُ الْاسْفَار کے خود نوشت مقدمے میں اس کی غزلیات اور نظموں کا تعارف کراتے ہوئے یہ تصریح کی ہے کہ ‘‘یہ میری عاجزانہ غزلیات اور نظموں کا تیسرا مجموعہ ہے، جو کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ شاعری اتنی نہیں ہے، جتنی کہ وہ میرے دل کی دھڑکنیں ہیں، وہ دِل جو محبت، خیال و تصوّر  اور ہر میدان میں جستجو  کی پیار سے موجزن ہے، وہ دل کہ جسے میں نے اجنبی اور آوارہ گرد کے نام سے موسوم کیا ہے، ’’۔

وہ  اپنے  ایک نظم میں یہ اعلان کرتے ہیں:

میں             ایک           شاعر           ہوں

اور    حسن    و    جمال    کی    وادی    میں

میرے            سر           چشمے            ہیں

میں    آفاق    میں    پھیرتا    ہوں    آوارہ

اپنے     پہلو    میں      آتشِ    شوق      لئے

اور  اپنی سواری  وہیں بٹھا کر  پڑاؤ  ڈالتا  ہوں

جہاں         قسمت         مُجھے      پھینکدے

اُس         دُنیا        کو      میرا     سلام       ہے

جہاں                      رہتے                     نہیں

مُجھ  جیسے شعور و وجدان کی حِدّت کے حامل شاعر

ان تصریحات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ عبدہ محمد عتین الغریب ایک ‘‘فطرت پسند’’ رومانوی شاعر ہے۔

اس کی زیرِ تبصرہ نظم کے مندرجہ ذیل ابتدائی اشعار اس پر شاہد ہیں:

ہوئے    ہیں    محبت    میں   جانِ    بہار!
مِرے     معرکے    بے    حساب    و   شُمار

کہ    جن    میں    ہویدا    ہُوئے   بار   بار
مِرے   دست   و   بازو   کے   گُر  صد   ہزار

میں    ہوں    شہسواروں    کا   وہ   شہسوار
کہ   جس  نے  کیا  تُجھ  سے  کِتنا  ہے  پیار

زمانے   سے   پوچھو  مِری  بات  پیارے!
نہیں      گر      کہے    کا     مِرے     اعتبار

ہے    کتنے    ستاروں    پہ    ڈالے   کمند 
اور   کتنے   ہی   ماہ   رُخ  کئے   ہیں  شکار

ذرا   جو   اکیلے    میں   تُو   مسکرا   دے 
کروں  جان  و  دل  تُجھ  پہ  اُس  دم  نثار

دکھا   دوں   گا   میں  فی  الفور  اپنا  سراپا

جو     چاہے     تُو،    دیکھے    مُجھے   آشکار

یہ   دل   جو   کہ  تیرا ہے  والہ  و  شیدا 
یہ  جاں   جو  کہ   تُجھ   بِن  یتیم  و  نَزار

میں ساحر دلوں کا ہوں عشق کی  بدولت
نہیں ‘‘ نفثِ  جن ’’ سے   مِرا  یہ  شرار

میں شاعر ہوں، ہر مَہ جبیں کا ہوں عاشق
ہے    مجھ  کو   چڑھا   اُس   نشے  کا   خُمار

جو    وہ    لذّتِ    ارغوانی    دئے   ہے
کہ حسّوں سے پھوٹی  مِری اس  کی  دھار

ہے  مُنڈ لاتا  چشموں  کے  اُوپر،  سُنو تُم
مِرے   دل   کے   طائر   کی   چیخ  و  پُکار

مُجھے  یاد  اب  تک  ہے  وُہ  وقت جب ہم 
مِلے     تھے     سَرِ     شامِ    پُر     انتظار

ندیموں  کی  محفل  میں  چپ  چاپ بیٹھے
بَسر    گوشئی    شوق    سب   سے   کنار

محبت    بھری   گفتگو   کر   رہے   تھے 
کہ   باغوں   میں   چڑیوں   کو   آیا  خُمار

ہماری    محبت    کی    بُلبل    جو    چہکی
تو   ہونٹوں   کی   گُٹّھی   کا   جا گا  شَرار

وفورِ     محبت    نے     انگڑائیاں     لیں
بصد   شوق   و   اذواقِ   بوس   و   کِنار

ان اشعار کے مجموعی شاعرانہ ، وجدانی اور تخیّلاتی مزاج کے آئینے میں عبدہ محمد عتین الغریب کی رومانویت کی کوئل اپنا پر تولتی، محبت کی بولی بولتی اور چہکتی نظر آتی ہے۔ کچھ اس انداز سے اور اِس طور سے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ شاعر کو حِسَّیت (sensualistic appraoch) اور لذّت پرستی (hedonism) کی دہلیز پر پہنچا گئی ہے۔ یہ وہ تأثر ہے جو اس نظم کو پڑھ کر قاری پہلی نظر میں لیتا ہے۔

لیکن یہ حسیّت اور لذّت پرستی، جیسا کہ آگے چل کر نطم کے بقیہّ اشعار کے مطالعے سے اخذ ہوتا ہے، سراسر رمزیّاتی (symbolical) اور برائے نام ہے۔

کیونکہ اسی نظم میں آگے چل کر شاعر کا ‘‘نگارِ حُسن’’  ‘‘نگارِ وطن’’  کا رُوپ دھار لیتا ہے، چنانچہ نظم کا ڈراپ سین مندرجہ ذیل اشعار پر (جن کا ما سبق اشعار سمیت پورا مفصّل حوالہ گزر چُکا ہے) ہوتا ہے:

اس نظم میں ‘‘جانِ بہار’’، ‘‘محبت کی بُلبل’’، ‘‘سندہ کی ہوا’’، ‘‘کشمیر کے ٹیلے’’، ‘‘پنجاب کی پڑوسن’’ اور ‘‘خیبر کی دُلہن’’، ‘‘سیف الملوک’’، ‘‘کاغان’’، ‘‘ناران کی نار’’، ‘‘نگارِ بہاراں’’، ‘‘تذکار و عشقِ دیار’’ استعاراتی علامتیں (metaphysical symbols) ہیں، جن میں شاعر کی محبوبہ اور وطن کی مٹی کے خواب و تصوّر ایک دوسرے کے اندر مُدغم ہوگئے ہیں۔ کیونکہ یہ وطن کی مٹی ہے جس کی بدولت شاعر کے لئے اُس کی محبوبہ کا سراپا اور لب و لہجہ بالترتیب جنتِ نگاہ اور فردوسِ گوش بنتے ہیں۔ اور یہ وہ حقیقت ہے، جو ایک طرف تو لوک ورثہ و ثقافت، موسیقی و گلوکاری، مجسمّہ سازی و مُصوّری، لوک ناچ اور ڈریس شو اور مُلکی تہواروں کے سلسلے میں اُبھر کر سامنے آتی ہے، اور دوسری طرف وہ نفسیّات (psychology)، بَشَرِیَّات (anthropology) اور عُمرانیات (sociology) جیسے علوم کا موضوع بنتی ہے۔

علاوہ ازیں، اس خوبصورت نظم کے اندر رومانویّت (romanticism)، فطرت شعاری (naturalism) اور وطن دوستی (nationalism) یہ تینوں لہریں (currents) شاعر کے تصوّر کی جھیل میں گڈ مڈ ہوچکی ہیں۔

یہاں پہنچ کر ایک محقق دیکھتا ہے کہ عبدہُ محمد عتین الغریب کے ساتھ وہی معاملہ ہُوا، جو جرمنی کے شاعر اور مُفکّر گوئٹے (Goete) کے ساتھ ہُوا۔ جو جسم کی حد تک رہتا تو جرمنی میں تھا، لیکن اُس کی رُوح ‘‘مشرق کے مرغزاروں اور لازاروں’’ میں گھومتی پھرتی تھی۔

اور علّامہ اقبالؒ کے الفاظ میں جو اُس نے اپنے فارسی دیوان: پیامِ مشرق کے خود نوشت دیباچے میں کہے ہیں: ‘‘۔۔۔۔۔ یورپ کی عام ہنگامہ آرائیوں سے بیزار ہو کر اس کی بے تاب اور بلند پروار رُوح نے مشرقی فضا کے امن و سکون میں اپنے لئے ایک نشمین تلاش کرلیا۔ حافظ کے ترنُم نے اس کے تخیّلات میں ایک ہیجان عظیم برپاکردیا، جس نے آخر کار ‘‘مغربی دیوان’’ کی پائدار اور مستقل صورت اختیار کرلی’’۔ (پیامِ مشرق ۔ دیباچہ ص د)

اور بیل سوشکی  کے الفاظ میں جو علامہ اقبالؒ نے اپنے مذکورہ دیوان کے دیباچے میں نقل کئے ہیں:

‘‘بُلبُلِ شیراز کی نغمہ پردازیوں میں گوئٹے کو کو اپنی ہی تصویر نطر آتی تھی۔ اس کو کبھی کبھی یہ احساس بھی ہوتا تھا۔ کہ شاید میری روح ہی حافظ کے پیکر میں رہ کر مشرق کی سرزمین میں زندگی بسر کر جکی ہے۔ وہی زمینی مسّرت، ہی آسمانی محبت، وہی سادگی، وہی عمق، وہی جوش و حرارت، وہی وسعتِ مشرب، ہی کشادہ دلی اور وہی قیود و رسوم سے آزادی ! غرضکہ ہر بات میں ہم اُسے حافظ کا مثیل پاتے ہیں۔ جس طرح حافظ لسان الغیب و ترجمانِ اسرار ہے اسی طرح گوئٹے بھی ہے اور جس طرح حافظ کے بظاہر سادہ الفاظ میں ایک جہانِ معنی آباد ہے اسی طرح گوئٹے کے بیساختہ پن میں بھی حقائق و اسرار جلوہ افروز ہیں۔ دونوں نے امیر و غریب سے خراجِ تحسین وصول کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے وقت کے عظیم الشان فاتحوں کو اپنی شخصیت سے متاثر کیا (یعنی حافظ تیمور کو اور گوئٹے نے نپولین کو) اور دونوں عام تباہی اور بربادی کے زمانے میں طبعیت کے اندرونی اطمینان و سکوں کو محفوظ رکھ کر اپنی قدیم ترنم ریزی جاری رکھنے میں کامیاب رہے’’۔  (ص ص ھ ۔ و)

عبدہُ محمد عتین الغریب کی رُوح نے بھی ارضِ پاک کی فضاء میں اپنا آشیانہ بنا لیا ہے، کیونکہ وہ یہاں کے لوک ورثہ و ثقافت، اور خاصکر علّامہ اقبالؒ کے شاعرانہ شعور، صوفیانہ وجدان اور فلسفیانہ فکر سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں، اُس کی پوری نظم: وطن کا عشق اور مامتا کی محّبت اسی تأثر کا شاعرانہ اظہار ہے، جو بزبانِ حال و قال بناتا ہے کہ یہاں کی آب و ہوا اور تہذیب و تمدّن اور ثَقافت کی طلسماتی و گونا گوں فضا کس قدر محسور کُن، دلفریب اور پُرکشش ہے۔

محمد جمیل قلندر کی اُردو شاعری عبدہُ محمد عتین الغریب کی نظم : وطن کا عشق اور مامتا کی محبت کے تناظر میں:

تجربے، مشاہدے اور شاعرانہ شعور کے اعتبار سے عبدہ محمد عتین الغریب اور محمد جمیل قلندر میں کئی چیزیں قدرِ مشترک ہیں۔ جن میں سے ایک تو علامہ اقبالؒ کے شاعرانہ شعور، صوفیانہ وجدان اور فلسفیانہ فکر سے دونوں کا متأثر ہونا اور کسبِ فیض کرنا ہے۔ دونوں اپنے ماحول کی تنگنائے سے نکل کر آفاقیّت کی فضاء میں پر افشانی کرتے ہیں۔   دونوں کی تصوّراتی جھیل میں رومانویت ، فطرت پسندی، اور دھرتی ماں (Mother Earth)  سے محبت کے کنول ایک دوسرے سے بغلگیر ہو رہے ہیں۔

عبدہ محمد عتین الغریب کی شاعری اس کی نظم: زخمِ فراق کی روشنی میں:

عبدُہ محمد عتین الغریب کی نظم: وطن کا عشق اور مامتا کی محبت کی روشنی میں اس کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے یہ نتیجہ آخذ کر کے سامنے لایا گیا ہے کہ کہ اس نظم کے حوالے سے اس کی شاعری میں رومانویت، فطرت پسندی اور دھرتی ماں سے محبت یہ تینوں جذبے ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے ہیں۔ لیکن یہ اس کی نظم: زخم فرا ق ہے، جس کے اندر رومانیت (romanticism) کا جْذبہ اپنے اوج (climax) پر پہنچا ہوُا نظر آتا ہے۔ یادِ ماضی (nostalgia) اور حسرت و احساسِ محرومی (sense of deprivation) کے شاعرانہ اظہار کےساتھ ۔ اس نطم کے شعری تانے بانے اور بیساختہ پرایۂ اظہار کے پیشِ نظر اس پر مشہور و معروف انگریزی رومانوی شاعر ولیم  ورڈز ورتworth)  (William Words کا یہ قول صادق آتا ہے کہ poetry is the spontaneous overflow of strong and intense emotions   ‘‘شاعری جذبات کی شدّت کا بیساختہ چھلکنا ہے’’۔

اور ھیزلِٹ (Hazlitt) کا یہ قول بھی کہ Poetry is the language of imagination and the passions. ‘‘شاعری تخیُّل اور جذبات کی زبان ہے’’ (ص ۶۴)۔

عبدہُ محمد عتین الغریب کی یہ نظم اسم با مُسمّٰی ہوکر زخمِ جُدائی کی دلسوز شہنائی ہے۔ کوئی ذِی روح (جاندار) جب زخمی ہو جاتا ہےتو فریاد کرتا ہے۔ علّامہ اقبالؒ کے پیر و مُرشد حکیم جلال الدین رومیؒ نے بانسری کی مثال دی ہے، جو بزبانِ حال فریاد کرتی ہے کہ جب سے مجھے اپنے اصل گھر  ‘‘نَیِستان’’ سے کاٹا گیا ہے، تو چار سوراخوں کی شکل میں چار جگہ سے زخمی ہو کر اتنے سوز و گداز سے روتی ہوں کہ دُنیا کو رُلا دیتی ہوں۔ حکیم جلال الدین رومیؒ شہنائی کے زخمِ جُدائی اور اس کی آتش نوائی کی داستانِ دلرُبائی یوں بیان کرتے ہیں:

بشنو از نے چون حکایت می کُند

و  از  جُدائی  ہا  شکایت  می  کُند

کَز  نَیِسْتان  تا  مرا  بُبریدہ   اند

از  نفیرم  مرد و زن نالیدہ  اند

سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق

تا     بگو یم    شرحِ   دردِ    اشتیاق

یعنی: تُو شہنائی سے سُن لے

کہ وہ کس طرح جدائیوں کے گلے شکوے کرتی ہے

کہ جب سے لوگوں نے مجھے اپنے اصل گھر ‘‘نیستان’’ سے کاٹ لیا ہے۔

مرد اور عورتیں میری فریاد سُن کر رو پڑی ہیں

میرا سینہ جُدائی کے زخم سے پارہ پارہ ہُوا چاہتا ہے

تا کہ میں اپنی دکھ بھری شوق کی کہانی سُناتی جاؤں۔

محمد جمیل قلندر اپنی نظم: ‘‘ دیوانہ و مستانہ قلندر ’’ میں ساز و آواز سے پیدا شُدہ سوز و گُداز کی صورتِ حال یوں بیان کرتا ہے:

سنگریزے بھی رو پڑتے ہیں روپڑ شریف میں

جب     ساز     بجاتا     ہے      وہ     مستانہ    قلندر

تو عبدہ محمد عتین الغریب کی نظم: زخمِ فراق چار سوراخوں کی شکل میں شہنائی کی  وہ زخمِ جُدائی ہے، جس کی  آہ  و فغاں کی آتش نوائی دُنیا کو رُلاتی ہے۔

اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

تو     اگر    ہے    مُبتلائے    زخمِ    فرقت    اے   قَمَر!

میں ہوں خوشبُو، تیرے سارے دُکھ اُٹھا لوں، غم نہ کر

پیار   کی   موجوں   میں   تیرے   کشتی   اپنی   ڈالدی

رحم   کر   دل  پر  مِرے   کیا  جانے  تُو  اے  بے   خبر!

میں   نے   تیرے   ساتھ   بانٹا   پیار  جو  تُو  نے  دیا

کاش   میں  جانوں،  نہ  لوں  میں  تیرے  غُصّے  کا  أَ ثر

رُوح   سے    اپنی    جُدائی    کا   نہ   تھا   وہم   و  گُماں

وقت   مانع   ہے   کہ   ہم   دونوں  رہیں  شیر  و  شکر

جوبھی  قسمت  ہے،  ہمیں  منظور  ہے،  حیراں  نہ  ہو

ہے    پلاتا    وقت   اکثر    وہ    جو نے    چاہے   بشر

آہ!   ہر   کوئی   جو   من   چاہے،  وہ   ہاتھ  آتا  نہیں

اور  جس  کو  آنکھ  ڈھونڈے،  ملتا  کب  ہے   وہ  گُہر؟

دُکھ  جو  ہے دل  میں، ہے  شَکوی  اُس  کا اللہ  کے حضور

اور   اُن   شعلوں   کا   جو   بھڑکے ہیں  بے  زیتِ  شَجر

آہ!   وہ   زخمِ   جُدائی،   جس   کی   کڑواہٹ   ہے  زہر

زخم   بھر   جائیں   گے   سب،  پر  وہ  ہَرا  رہے  گا   مگر

سائے میں راتوں کے تیری  یاد،میں، اور  ہائے  ہائے

یاد   کے   ساتھی:  مِرے   محبوب   تُو،   ماں   یا   پَدَر

تُجھ  میں  ہیں  یادیں  مِری،  جب سے سفر سے آیا ہوں

میں ہوں اک  پردیسی  مہماں  تیرے  غم  میں خَستہ  تر

(صفحہ ۸۵ ۔ ۸۶)

ان اشعار میں شاعر کی یادِ ماضی سے وابستہ اس کے دل کی تڑپ اور اس کی رُوح کی کسک قابلِ دید  ہے۔ اپنے تصوّراتی تانے بانے (imagery) اور جذباتی کیف و حال (emotional state) کے لحاظ سے بلا مبالغہ یہ  ایک شہکار نظم ہے، جس کی نغمگی اور موسیقیّت کے زیر و بم کے اندر انگڑائیاں لینے والے شاعر کے دریائے رُوح میں جذبات و احساسات کی موجوں کا اُتار چڑھاؤ قاری کے دل میں رقّت اور سوز و گداز کا الاؤ روشن کرتا ہے۔

یہ ایک غزلیاتی نطم ہے، جس کے اندر حسرت و احساسِ محرومی کی شدّت عروج  پر پہنچ کر مندرجہ ذیل  اشعار  کے  پرایۂ  اظہار میں ڈھل کر سامنے آتی ہے:

رُوح    سے    اپنی    جُدائی    کا    نہ   تھا   وہم   و   گُماں

وقت   مانع   ہے   کہ   ہم   دونوں   رہیں   شیر  و  شکر

جو  بھی  قسمت  ہے،  ہمیں  منظور  ہے،  حیراں  نہ  ہو

ہے    پلاتا    وقت    اکثر    وہ    جو   نے   چاہے   بشر

آہ!   ہر  کوئی   جو   من   چاہے،   وہ   ہاتھ   آتا  نہیں

اور  جس  کو  آنکھ  ڈھونڈے،  ملتا  کب  ہے  وہ  گُہر؟

(زخمِ فراق ص ۸۵)

یہ اس نظم کی پہلی انگڑائی ہے۔ آگے چل کر یہ نظم مزید چار انگڑائیاں لیتی ہے، دوسری انگڑائی تغّزلِ محض اور رومانیت کی ، اور تیسری انگڑائی اقبالؒ اور اُس کے خواب و تصوّر کی تعبیر:  ارضِ پاک، اور اُس کے محبوب رہبر پیغمبرِ اعظم ﷺ کے ذکرِ جمیل کی اور چوتھی انگڑائی حضرت لال شہباز قلندر کے دیس سندھ، اور یہاں کے تہذیب و تمدّن اور ثقافت کے آثار کے تذکارِ جلیل کی ، جن میں اسلام کے حسن و جمال کے تاج پہنے گنبدوں کا کروفر اور شان و شوکت شامل ہے، اور پانچویں انگڑائی، جس پر اس خوبصورت اور موسیقیّت و نغمگی سے بھرپور  نظم کا ڈراپ سین ہوتا ہے۔

ان چار انگڑائیوں کے اعتبار سے بالترتیب نظم کے اشعار ملاحظہ ہوں:

دوسری انگڑائی کی ابیات:

تُو ہی وہ تھی، پیار سے جس نے لگایا سینے سے 

چھولیا پیروں نے میرے جب بھی تیرے بحروبر

تُو ہی تھی وہ چاند جو میرے تخیُّل میں رہا

رات جب برسات نے نہلا دئیے کوہ و کمر  

شرم کے مارے چمکنے سے رہیں یہ بجلیاں

جیسے میرا چاند ہنسا، چھُپ گئے برق و شرر 

دل  لگی  تُجھ  سے  کی  سرگوشی  میں  تُو  کترا گئی

سرمئی   آنکھوں   کی   شہلا!   میرا  دِل  چھلنی  نہ  کر

بولا میں ‘‘پردیسی ہوں، کُوئی ہے؟’’  تو وہ آگے  بڑھی

یہ  ‘‘ مَہا ’’  کی بات سُن لی ‘‘مرحبا  بر چشم وسَر’! ‘

حُور تھی وہ ملکہء صد فتنہ سامانیِ حُسن

اُردو، عَرْبی دونوں میں جانِ غزل سَر تا کَمَر

ہنسے وہ ‘‘ھَیْفا’’ تو اس کے حُسن کو لگے چار چاند   

سندھی ہے مشہور اور نام و نسب میں تاجور

مُسکرادی، ساتھ اُس کے پیار کا بانٹا جو جام

’’پی جئے’’ بولی، میں بولا ‘‘نہیں، تُو ہی پہل کر’’

اے مِرے رب! گر کرے وہ دعوتِ رشتہ قُبول

تو میں سمجھوں، میں ہُوا حُسن و نسب کا گنجور

تیسری انگڑائی کی ابیات:

تھا پُرانے وقتوں میں اقبالؒ کو اس سے لگن

بیشتر اَوراق میں یُوں اُس کی رودادِ سَفَر

میں لگا اشعار کہنے یوں نگینوں کی طرح 

جیسے کوئل گائے تو لَے میں بڑھے اُس کا اَثَر

بولا پاکستان: تُو ہے عشق میں وارفتہ دل

میرا مِلنا تیری منزل ہے اے منظورِ نظر

اس کے عاشق، اس کے سنگی، اور سب اس کے سپُوت

اِک تڑپ کے ساتھ جانے ہیں نبیؐ کو راہبر

چوتھی انگڑائی کی ابیات:

پیارا مجھ کو اُس کے ہے ’’اسلام‘‘ کا حُسن و جمال

اُوج میں بڑھتا ہے اس کے گُنبدوں کا کرّوفر

اے ہوائے سِندھ! میرے دل میں ہے تُجھ سے لگن 

آنکھ فریادی ہے، اشکوں نے جلائے خُشک وتَر

تیری یادیں میرے دل میں یُوں رہیں گی دائماً

بلکہ ہر دم میرے آب و دانہ میں شام و سَحَر

وہ علی کا عہد بھولوں گا نہیں اے جاں کبھی

جب تلک مہکے یہ بادل، اور چمکے مہرِ زَر

پانچویں انگڑائی کی ابیات:

قافیوں نے شعر میں جب بھی تِرا گُن گایا ہے

تو نے دیکھا میرے نغموں میں مِرا خُونِ جگر 

آہ! دُنیا میں ہے گر کوئی مِری اُلفت کا راز

یا مراتب اور بلندی چھونا ہے پیشِ نَظَر

تو وُہ تم ہی ہو کہ جس بِن کَب رہا کوئی پسند

چُننے دو گر مُجھ کو انبارِ بہائے سِیم و زَر

مجھ کو اے لیلائے پاکستان تُجھ سے پیار ہے

تکئے میری راہ، لوٹ آؤں گا، ہو گھٹنوں کے بَل آنا اگر

چنانچہ یہ ایک پنج بُعدی (penta dimensional) غزلیاتی نظم ہے، جو شاعر کی زیرِ تبصرہ پہلی نظم: وطن کا عشق اور ماں کی محبت کے ساتھ مل کر شاعر کی نفسیّات، اس کی وجدانی کیفیت، اس کے شاعرانہ شعور اور فکری میلان کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے، جس کے پیشِ نطر اپنے ہم وطنوں میں سے ہو کر ان سے یکسر مختلف اور متباین مزاج کے حامل کے انسان کے طور پر اُبھر کر سامنے آتا ہے۔

ڈاکٹر محمد جمیل قلندر نے عبدہ محمد عتین الغریب کے دیوان: دُمُوْعُ الأ سفار  پر عربی میں چار صفحات پر مشتمل ایک جامع تقریظ  بعنوان: أنِينُ الأوْتَارِ مَعَ دُمُوْعِ الأسْفَار لکھی ہے، جو بذات خود فصاحت و بلاغت اور معنویت میں ایک یاد گار نشانی (monument) سے کم نہیں۔ اس تقریظ کا مکمل اصل عربی متن اس مقالے کے آخر میں بطورِ ضمیہ لگا دیا گیا ہے۔

اس میں محمد جمیل قلندر لکھتے ہیں:

شاعر ڈاکٹر أبو محمد عبدہ محمد عتین جیسا شخص میں نے اس کے ہموطنوں میں سے اُس جیسے اشخاص اور ہمجولیوں میں نہیں دیکھا ہے۔ اس امتیازی وصف کی بدولت کہ وہ نہایت تیز احساس، فکرِ رسا، اور ظاہری، باطنی اور انسانی حسن و جمال کا غیر معمولی شعور رکھتا ہے۔ جس کی گونج اس کے شعری مجموعۂ کلام: دُمُوْعُ الأ سفار کے اندر سُنائی دیتی ہے، جو جیسا کہ وہ خود اس کی تصریح کرتے ہیں: ‘‘محبت، حسن و جمال کے شعور، اور جستجو سے لبریز دل کی دھڑکنوں سے عبارت ہے۔ سو وہ ہر وادی میں، اور بلند و بالا پہاڑوں میں پَر افشانی کرتا ہے۔ بے خوابی نے اُسے ہلکان اور نڈھال کردیا ہے، اور مسلسل سفر اور کوچ نے انہیں تھکا دیا ہے یہاں تک کہ اُس نے خود کو ‘‘اجنبی’’ اور ‘‘کوچی’’ کے نام سے موسوم کردیا ہے۔

آگے چل کر محمد جمیل قلندر لکھتا ہے:

سو وہ صرف شاعر نہیں، بلکہ وہ اپنی رُوح، اپنے وجدان  اور اپنے قلب و قالب کے ساتھ جگہ جگہ متقلّب (گھمونے پھرنے والا) اور جہان گرد شاعر ہے، جس کو حُسنِ اتفاق سے یہ موقع  ملا کہ وہ زمین کے مشارق و مغارب میں سیر و سیاحت کرے۔ سو وہ ایسا بن کر نکلا کہ وہ اپنے دل سے سوجھ بوجھ کا کام لیتا اور آنکھوں سے دیکھتا، اور کانوں سے سُنتا ہے یہاں تک کہ اُسے ایسا شعور نصیب ہُوا کہ جس کا اظہار وہ فی البدیہہ اشعار میں کرتا ہے، اور جیسے وہ اپنی شاعری سے لبریز پیالے میں اُندیلتا ہے اور کبھی کبھار مشاہدے کی باریکی، فکر کی لطافت، اور جذبات کی شدّت کے باعث یہ محسوس کر کے کہ ‘‘بیان’’ کی تنگنائے میں اس کا دم گُھٹ رہا ہے، وہ اس کی قید و بند کو پھلانگ کر آگے نکل جاتا ہے۔  

محمد جمیل قلندر کی اُردو شاعری کا تنقیدی جائزہ:

محمد جمیل قلندر، جیسا کہ اس مقالے کے ذیلی عنوان: سروے آف لٹریچر کے تحت درج شدہ تفصیل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، ایک آفاقی اور قادر الکلام فلسفی شاعر ہے۔ یا یوں کہیئے کہ شاعر فلسفی ہے۔ اس کے بارے میں عبدہ محمد عتین الغریب لکھتا ہے:

یہ میرے دل کی گہرائیوں سے نکلا ہُوا احترام و تعظیم اور شکرئے کا پیغام ہے، جسے میں اپنے فاضل اُستاذ اور عظیم مُعَلّم کی خدمت میں اور اس کے حضور پیش کرتا ہوں، جس کے علم سے میں نے اقتباسِ نُور اور اکتسابِ فیض کرلیا ہے، اور کرتا ہوں۔ جو ہر بڑے چھوٹے کا دوست ہے، اور جو قادر الکلام شاعر، نہایت تیز احساس و  وجدان اور فصیح و بلیغ زبان کا مالک، اور دوستوں کا دوست ہے۔ جس نے کبھی بھی اپنے وسیع علم اور قیمتی وقت میں سے مجھے دینے میں بُخل سے کام نہیں لیا۔ وہ ایک بلند پایہ أدیب ہے یعنی: پروفیسر محمد جمیل قلندر، جس نے میرے حقیر سے اس مجموعۂ کلام:  دُمُوْعُ الأ سْفَار پر تقریظ لکھی، جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے دل آوارہ کے باغ کا وہ آخری پھل ہے، جسے میں نے توڑ لیا ہے، جبکہ میری عُمر میں سے اُسے زیادہ وقت نہیں بچا ہے، جتنا کہ گذر چُکا ہےم اور آنجناب (محمد جمیل قلندر) نے میرے اس دیوان کو اپنے اوتار (تاروں) کے سُر اور اپنے افکار کی خوشبو سے عطر بیز کردیا ہے، اور میری تعریف اُس حد سے زیادہ کی ہے، جس کا میں مستحق ہوں۔ یہ اس کی طرف کسرِ نفسی اور حوصلہ افزائی ہے۔

عبدہ محمد عتین الغریب کی یہ تحریر محمد جمیل قلندر کی علمی و أدبی کارناموں کی یادگار تختی پر کندہ شُدہ ایک لافانی خراجِ تحسین کی حیثیت رکھتا ہے۔

محمد جمیل قلندر کی شاعری میں اگرچہ رومانیّت کا عُنصر بھرپور موجود ہے، مگر اس کے محرابِ سُخن میں سب سے زیادہ ماحولیاتی شعور  (environment awareness) کے ساتھ ساتھ آغوشِ فطرت کی طرف باز گشت (back to Nature) اور ماورائیت (transcendentalism) کی گونج مسلسل سُنائی دیتی ہے۔ اس کے شاعرانہ مزاج پر تفلسُف کا غلبہ ہے۔

جہاں تک ماحولیاتی شعور اور آغوش فطرت کی طرف واپسی کا توتعلق ہے، تو وہ محمد جمیل قلندر کے اُردو مجموعۂ کلام: کشکول کی کئی نظموں، غزلیات اور اس کے اشعار کا نقطعۂ ماسکہ ہے، خاصکر مندرجہ ذیل شعری عناوین کے تحت:

١ ۔ ایک تمنّا، جو علامہ اقبالؒ کی نظم: ایک آرزو کی صدائے بازگشت یا دوسرا جنم ہے یہاں تک کہ اسلوب اور ڈکشن دونوں اِقبالیّت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ یہ نظم چار صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔

۲۔ عذاب السُموم (زہروں کا عذاب): اٹھارہ صفحات پر پھیلی طویل نظم، جو غیر فطری اور مصنوعی کلچر کی یلغار اور اس کے نتیجے میں ماحولیاتی توازن بگڑ جانے کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔

۳۔ کیمیا کا سِجّین: آٹھ اشعار مشتمل ایک غزلیاتی نظم جو ‘‘عذاب السموم’’ کے مضامین (contents) کا ایک طرح کا خلاصہ ہے۔ اور جو کیمیاوی طور پر تیار شُدہ (chemically processed) اشیائے خود و نوش اور ان سے پیدا ہونے والی نفسیّاتی، اعصابی، جسمانی اور روحانی بیماریوں سے قاری کو متنبّہ کرتی ہے۔

جہاں تک ماورائی اندازِ فکر کا تعلق ہے تو مذکورہ مجموعۂ کلام: کشکول کی مندرجہ ذیل نظمیں نہایت قابلِ غور ہیں:

جہاں تک ماورائی اندازِ فکر کا تعلق ہے تو مذکورہ مجموعۂ کلام: کشکول کی مندرجہ ذیل نظمیں نہایت قابلِ غور ہیں:

١) حریمِ قلب: یہ غزل نما چھوٹی نظم قلب کی دُنیا کے اندر جھانک کر عالمِ صفات سے ماوراء ‘‘ذات’’ کی طرف ‘‘سیر’’ کا شاعرانہ بیان ہے۔

۲) چشمِ بینا: دس اشعار پر مشتمل چھوٹی سی غزل، جو اس سوال اور جواب پر ختم ہوتی ہے:

ایک ہی راز تھا جو کُھل نہ سکا

یعنی کیسے؟ کیوں ہے؟ اور کیا ہے؟

زندگی کیا ہے؟ آ بتاؤں جمیل!

سوزشِ میر، سازِ سودا ہے

۳) کشکول قلندری: آٹھ صفحات پر پھیلی ہوئی طویل نظم، جو محمد جمیل قلندر کی ماورائی فلسفے کو نہایت جامعیّت اور فنی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ یہ واقعی ایک شہکار نظم ہے، جو اس طرح، اور اس قبیل کی دوسری نظموں کے ساتھ مل کر محمد جمیل قلندر کو بین الاقوامی مُفکّر شعراء کی صف میں کھڑا کردیتی ہے۔

اس طرح دیوان کی بقیہ نظمیں مثلا دِل دریا، موج کا دریا، دیوانہ و مستانہ قلندر، دیوانہ و مستانہ، ملنگ، اور قلندر اور سمندر ماورائی فکر کے نقطۂ عروج کی نظمیں ہیں۔ جو علامہ اقبالؒ کی شاعرانہ (poetic thought) اور فکری شاعری (philosophic poetry) کے اندر قلندر کے راکب ایام ہونے کے حوالے سے اُس کے تصوّرِ خودی کی شاعرانہ مگر عرفانی تعبیریں ہیں۔

خلاصۂ مباحث:

عبدہ محمد عتین الغریب اور محمد جمیل قلندر دونوں کے ہاں بعض اہم پہلو قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتے ہیں، جن میں سے سب سے اہم پہلو وہ ہے، جس کی طرف عبدہ محمد عتین الغریب نے اپنے عربی دیوان کے مقدمے میں ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: ‘‘یہ میری حقیر سی غزلیات اور نظموں کا تیسرا مجموعہ ہے، جو کہ میں سمجھتا ہوں اتنی شاعری نہیں، جتنی کہ وہ میرے اُس دل کی دھڑکنیں ہیں، جس کو میں نے ‘‘اجنبی’’ اور ‘‘کوچی’’ کے نام سے موسوم کیا ہے۔

محمد جمیل قلندر کے ہاں بھی اجنبیّت، غُربت اور مُسافری کا احساس بدرجۂ اتم موجود ہے۔ چنانچہ وہ اپنی نظم ‘‘ تلاش’’ میں کہتے ہیں:

یہ وحشت، یہ غُربت، یہ شام جُدائی

مسافر ہوں میں، ہم سفر ڈھونڈتَا ہوں

تجھے ڈھونڈتا تھا کہ خود کھو گیا  میں

اب اپنا پتا، اپنا گھر ڈھونڈتا ہوں


اور اپنی نظم ‘‘بُتِ حیرت’’ میں کہتے ہیں:

اس وسیع و مہیب عالَم

کس قدر گم ہوُں، کتنا تنہا ہوں!

عبدہ محمد عتین الغریب کی شاعری مین رومانویّت اور فطرت دوستی دونوں کی آمیزش غیر معمولی اندازہ میں موجود ہے۔ محمد جمیل قلندر کے ہاں بھی یہ دونوں جذبے بیک وقت پائے جاتے ہیں۔ مگر اس فرق کے ساتھ کہ فطرت دوستی کا جذبہ زیادہ غالب اور نمایاں ہے، اور نیز اس کے شاعرانہ مزاج پر تفلُسف (فلسفیانہ سوچ) اور ماورائی وجدان کا غلبہ ہے۔ وہ شعر برائے شعر کہنے کا کا قائل نہیں، بلکہ شعر اس کے ہاں فکر و وجداں اور فطرت دوستی پر مبنی ماحولیاتی شعور کے اظہار کا یک وسیلہ ہے۔

عبدہ محمد عتین الغریب کی شاعری دو قسم کی ہے: ایک مُنَاسَبات یعنی موقع اور محل کے مطابق، اور دوسری قسم خود بخود ‘‘وُرود’’ اور ‘‘آمد’’ پر مبنی شاعری۔ جبکہ محمد جمیل قلندر کی شاعری دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک تصوّر کو ایک مصوّر (painter) کی طرح اپنی غزل یا نظم میں پروان چڑھاتے ہوئے (elaborate) کرتا ہے۔

عبدہ محمد عتین الغریب کی شاعری اپنے سہل اور براہِ راست پیرایۂ اظہار کی بدولت عوام کو اپیل کرتی ہے، جبکہ محمد جمیل قلندر کی شاعری کوسمجھنے اور ہضم کرنے کے لئے خاطر خواہ علمی، فنی اور ادبی پس منظر کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ دل و دماغ کی دنیا بدلنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، بشرطیکہ اُسے بار بار پڑھا جائے۔

بہرحال  عبدہ محمد عتین الغریب اور محمد جمیل قلندر دونوں نے اپنی شاعرانہ تخلیق کی بدولت ‘‘جریدۂ عالم’’ پر اپنا نام ثبت کیا ہے۔  

عبدہُ محمد عتین الغریب کی زیرِ تبصرہ دو نظموں کا مکمل متن

زَخْمِ فراق 

القصیدۃ العربية بقلم: الدکتور ابو محمد عتین
الترجمة الأردية المنظومة من: الدکتور ایم جمیل قلندر

تو اگر ہے مُبتلائے زخمِ فرقت اے قَمَر!

میں ہوں خوشبُو، تیرے سارے دُکھ اُٹھا لوں، غم نہ کر

پیار کی موجوں میں تیرے کشتی اپنی ڈالدی

رحم کر  دل پر مِرے  کیا جانے تُو اے بے خبر!

میں نے تیرے ساتھ بانٹا پیار جو تُو نے دیا 

کاش میں جانوں، نہ لوں میں تیرے غُصّے کا أَثر

رُوح سے اپنی جُدائی کا نہ تھا وہم و گُماں

وقت مانع ہے کہ ہم دونوں رہیں شیر و شکر 

جو بھی قسمت ہے، ہمیں منظور ہے، حیراں نہ ہو

ہے پلاتا وقت اکثر وہ جو نے چاہے بشر

آہ! ہر کوئی جو من چاہے، وہ ہاتھ آتا نہیں

اور جس کو آنکھ ڈھونڈے، ملتا کب ہے وہ گُہر؟

دُکھ جو ہے دل میں، ہے شَکوی اُس کا اللہ کے حضور

اور اُن شعلوں کا جو بھڑکے ہیں بے زیتِ شَجر

آہ! وہ زخمِ جُدائی، جس کی کڑواہٹ ہے زہر 

زخم بھر جائیں گے سب، پر وہ ہَرا رہے گا مگر

سائے میں راتوں کے تیری یاد، میں، اور ہائے ہائے

یاد کے ساتھی: مِرے محبوب تُو، ماں یا پَدَر

 تُجھ میں ہیں یادیں مِری، جب سے سفر سے آیا ہوں

میں ہوں اک پردیسی مہماں تیرے غم میں خَستہ تر

تُو ہی وہ تھی، پیار سے جس نے لگایا سینے سے 

چھولیا پیروں نے میرے جب بھی تیرے بحروبر

تُو ہی تھی وہ چاند جو میرے تخیُّل میں رہا

رات جب برسات نے نہلا دئیے کوہ و کمر  

شرم کے مارے چمکنے سے رہیں یہ بجلیاں

جیسے میرا چاند ہنسا، چھُپ گئے برق و شرر 

دل لگی تُجھ سے کی سرگوشی میں تُو کتراگئی

سرمئی آنکھوں کی شہلا! میرا دِل چھلنی نہ کر

بولا میں ‘‘پردیسی ہوں، کُوئی ہے؟’’  تو وہ آگے بڑھی

یہ ‘‘مَہا’’ کی بات سُن لی ‘‘مرحبا بر چشم وسَر’! ‘

حُور تھی وہ ملکہء صد فتنہ سامانیِ حُسن

اُردو، عَرْبی دونوں میں جانِ غزل سَر تا کَمَر

ہنسے وہ ‘‘ھَیْفا’’ تو اس کے حُسن کو لگے چار چاند   

سندھی ہے مشہور اور نام و نسب میں تاجور

مُسکرادی، ساتھ اُس کے پیار کا بانٹا جو جام

’’پی جئے’’ بولی، میں بولا ‘‘نہیں، تُو ہی پہل کر’’

اے مِرے رب! گر کرے وہ دعوتِ رشتہ قُبول

تو میں سمجھوں، میں ہُوا حُسن و نسب کا گنجور

تھا پُرانے وقتوں میں اقبالؒ کو اس سے لگن

بیشتر اَوراق میں یُوں اُس کی رودادِ سَفَر

میں لگا اشعار کہنے یوں نگینوں کی طرح 

جیسے کوئل گائے تو لَے میں بڑھے اُس کا اَثَر

بولا پاکستان: تُو ہے عشق میں وارفتہ دل

میرا مِلنا تیری منزل ہے اے منظورِ نظر

اس کے عاشق، اس کے سنگی، اور سب اس کے سپُوت

اِک تڑپ کے ساتھ جانے ہیں نبیؐ کو راہبر

پیارا مجھ کو اُس کے ہے ’’اسلام‘‘ کا حُسن و جمال

اُوج میں بڑھتا ہے اس کے گُنبدوں کا کرّوفر

اے ہوائے سِندھ! میرے دل میں ہے تُجھ سے لگن 

آنکھ فریادی ہے، اشکوں نے جلائے خُشک وتَر

تیری یادیں میرے دل میں یُوں رہیں گی دائماً

بلکہ ہر دم میرے آب و دانہ میں شام و سَحَر

وہ علی کا عہد بھولوں گا نہیں اے جاں کبھی

جب تلک مہکے یہ بادل، اور چمکے مہرِ زَر

قافیوں نے شعر میں جب بھی تِرا گُن گایا ہے

تو نے دیکھا میرے نغموں میں مِرا خُونِ جگر 

آہ! دُنیا میں ہے گر کوئی مِری اُلفت کا راز

یا مراتب اور بلندی چھونا ہے پیشِ نَظَر

تو وُہ تم ہی ہو کہ جس بِن کَب رہا کوئی پسند

چُننے دو گر مُجھ کو انبارِ بہائے سِیم و زَر

مجھ کو اے لیلائے پاکستان تُجھ سے پیار ہے

تکئے میری راہ، لوٹ آؤں گا، ہو گھٹنوں کے بَل آنا اگر

وطن کا عشق اور مامتا کی محبت


القصیدۃ العربیة بقلم: الدکتور ابو محمد عتین
الترجمۃ الأردية المنظومة من: الدکتور ایم جمیل قلندر

ہوئے ہیں محبت میں جانِ بہار!

مِرے معرکے بے حساب و شُمار

کہ جن میں ہویدا ہُوئے بار بار

مِرے دست و بازو کے گُرصد ہزار

میں ہوں شہسواروں کا وہ شہسوار

کہ جس نے کیا تُجھ سے کِتنا ہے پیار

زمانے سے پوچھو مِری بات پیارے!

نہیں گر کہے کا مِرے اعتبار

ہے کتنے ستاروں پہ ڈالے کمند 

اور کتنے ہی ماہ رُخ کئے ہیں شکار

ذرا جو اکیلے میں تُو مسکرا دے 
کروں جان و دل تُجھ پہ اُس دم نثار


دکھا دوں گا میں فی الفور اپنا سراپا

جو چاہے تُو، دیکھے مُجھے آشکار

یہ دل جو کہ تیراہے والہ و شیدا 
یہ جاں جو کہ تُجھ بِن یتیم و نَزار


میں ساحر دلوں کا ہوں عشق کی بدولت
نہیں ’’نفثِ جن‘‘ سے مِرا یہ شرار


میں شاعر ہوں، ہر مَہ جبیں کا ہوں عاشق
ہے مجھ کو چڑھا اُس نشے کا خُمار 


جو وہ لذّتِ ارغوانی دئے ہے
کہ حسّوں سے پھوٹی مِری اس کی دھار


ہے مُنڈلاتا چشموں کے اُوپر، سُنو تُم
مِرے دل کے طائر کی چیخ و پُکار 


مُجھے یاد اب تک ہے وُہ وقت جب ہم 
مِلے تھے سَرِ شامِ پُر انتظار


ندیموں کی محفل میں چپ چاپ بیٹھے
بَسر گوشئی شوق سب سے کنار


محبت بھری گفتگو کر رہے تھے 
کہ باغوں میں چڑیوں کو آیا خُمار

ہماری محبت کی بُلبل جو چہکی
تو ہونٹوں کی گُٹّھی کا جاگا شَرار


وفورِ محبت نے انگڑائیاں لیں
بصد شوق و اذواقِ بوس و کِنار


اے سندھ کی ہَوا! ہوں پرستار تُجھ کا
تِرے میٹھے گُن کتنے گائے ہیں یار!


اے پنجاب کے گُل! دلوں کا ہوں شاعر
ترے دل میں کب شاعروں کا ہے پیار؟


بچھا دی تمہارے لیے خلعتِ دل
سَرِ سندھ سے تابلوچی دیار


بِنائے سعادت ہے رکّھی، حسینو!
ہیں پہنائے تُم کو یہ شعروں کے ہار 


سجایا ہے جن کو ہری ٹہنیوں پہ
یہ صرف اس لئے کہ ہے تُو مِرا پیار 


یہ دُکھ درد، اور اُنس بھاتے ہیں مجھ کو
کہ مُجھ کوہُوا تیری نینوں سے پیار 


نگارم! تو میرا تصوُّر حسیں ہے
جسے بخشدیا شِعری نقش و نگار


مرے دل پہ کھا ترس پیاری! کہ ہُوں میں
تِرا شاعِرِ تشنہ و دِل فِگار

پلادے بس اک میٹھی پیاری نظر سے 
مِری تشنہ حِس کی عبث ہے پُکار

اے سندھ کی ہوا! میں ہوں اِک سچا عاشق
ہے تُجھ میں میرے دل کا چین و قرار

 محبت، خلوص و وفا، قبلہء عشق
ہیں منڈلاتے چشموں کے اُوپر یہ چار


ہے تُجھ میں محبّت کی جنّت اے پیاری !
زمیں تِری ساری ہے باغ و بہار


کرے عاشقوں کے جو ہر درد و غم دُور
گُلابوں سے اپنے برنگِ ہزار


نِگارَم جو سرسبز مٹی ہے سندھی

ہے سِحرِنظر خِلقَتِ کرد گار


اے کشمیری ٹیلو! ہوں گُم تُم میں حیراں
نہ ہو کاش تم میں کوئی بے وقار


پروسن ہے پنجاب، خیبر ہے دلہن 
وہ کاغان و ناراں ہیں سب ’’پاک ہار‘‘


ہیں ٹیلے تِرے شاعروں کے نشیمن
یہ کوہ و دمن بھی، اور یہ مرغزار

ہیں میدانِ جولانیءِ شوق اُن کے

 باوجِ قرارش و موجِ فِرار


اُگاتے ہیں شعروں سے باغیچے دل کے 
جبھی ناچیں بادل، ہو مینہ موسلادَھار


عَسَل ریز اس کے ہیں سحر و معانی
مِری شاعری تُجھ سے شِعریٰ شعار


میں سیف الملوک سے چلا تابہ کاغان
رہا میں غزل خواں بَمدحِِ نگار


گِیا بانٹتا میں حسینوں میں نغمے 
جَلا دِل جو دیکھا وہ ناران کی نار


مجھے یاد کر اے نگارِ بہاراں!
کہ اس یاد سے دُگنا ہوتا ہے پیار 


یہ حرف لکھ چُکا ہوں میں اپنے لہُو سے
بعنوانِ تذکار و عشقِ دِیار

بآں نامِ نامی کہ ہے ارضِ پاک
عجیب و غریب اس کے لیل و نہار


وہ ماں جیسے ہے، گر چلے جاؤں اُس بِن 
وہی دیس چاہوں اور ممتا کا پیار 


[1] This is exquisite! Brilliant poetry. such a beautiful message of love! )July 23, 2012